تعارف

ذات واجب الوجود نے قرآن عظیم الشان میں جن وانس کی تخلیق کا مقصد عبادت کو قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"۔ تو عبادت و عطاعت باری تعالٰی ہی مطلوب و مقصود ہے۔ اب عبادت و عطاعت کو سکھانے کےلۓ اللّٰہ تعالٰی نے انبیاء کرام الصلوات والسلیمات اور کتب مقدسہ کا پاکیزہ سلسلہ شروع فرمایا جو خاتم النبین حضرت محمد مصطفٰیﷺ پر منتھی ہوا۔ آپﷺ کی عظیم صحبت سے صحابہ رضوان اللّٰہ تعالٰی علیھم اجمعین براۓ راست فیضیاب ہوۓ۔ انھوں نے تابعین اور تابعین نے تبع تابعین اور تبع تابعین نے فقہاء و محدثین کو عبادت کے طور طریقے سکھاۓ۔ آج کل جن مقدس مقامات میں اس عظیم فریضے کو سرانجام دیا جاتا ہے انکو مدارس اور مساجد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ لہذا یہ کہنا بجا ہے کہ موجودہ دور میں مدارس،مساجدعلماء،فضلاء عبادت کے لۓ موقف علیہ کا درجہ رکھتے ہیں اور موقوف کی بقا کیلۓ موقوف علیہ کی بقا شرظ ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ ادارے پوری تندہی اور جانفشانی سے پورے عالم کو اپنی دلکش اور دل آویز خشبووں سے معطر کر رہے ہیں۔ ہزاروں مفسیرین، محدیثین، مجتھدین، معلیمین، مصنفین، مبلغین، مجاہدین، متکلمین، فقہاء، اتقیاء، صوفیاء، ادباء انھیں مدارس سے بہرو ہو کر چار دانگ عالم میں پھیل گۓاور مشرق،مغرب،شمال اور جنوب دین کا لوہا منوایا اور بٹھکی ہوئی انسانیت کو دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی سے بچا کر عزت و کامیابی سے سرفراز فرمایا۔ لہذا مدارس کی اہمیت سے انکار کرنا محض ہٹ دھرمی ہی ہوگی۔

جامعہ حلیمیہ کا تعلیمی نصاب، تعلیمی طریقہ کار، اوقات اور کوائف وہی ہے جو دیگر دیوبند کے عقائد و فکر سے منسلک مدارس و جامعات کا ہے۔ چونکہ جامعہ ابتداء ہی سے وفاق المدارس کے ساتھ ملحق ہے اسلۓ وفاق کے نصاب کے مطابق تمام درجات کا سالانہ امتحان وفاق المدارس کے نظم کے تحت ہوتا ہے۔ جامعہ میں سینکڑوں طلباء مختلیف شعبہ جات میں پڑتھے ہیں اور ان کی کفالت کا پورا زمہ مدرسے کا ہے۔ طلباء کے مختلیف شعبہ جات درجہ ذیل ہیں۔
حفظ القرآن میں طلباء ناظرہ سے لیکر حفط اور دور حفط تک کے طلباء پڑتھے ہیں۔ یہاں نہ صرف علاقے کے بچے بلکہ دور دراز سے بھی طالب قرآن سیکھنے آتے ہیں اور ہر سال کافی تعداد میں حافظ بنتے ہیں۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ متوسطہ کا ہے۔ یہ تین سالہ کورس ان طالباء کے لۓ ہوتا ہے جنھوں نے کوئی عصری علوم حاصل نہ کی ہو یا آٹھویں جماعت سے کم علمی قابلیت ہوں۔ اس کے بعد طلباء کو فقہ و حدیث کا علم دیا جاتا ہے۔ اس آٹھ سالہ کورس میں طالب علم کو عربی، تفسیر، فقہ و حدیث سکھائے جاتے ہیں۔ تخصص کے دوسالہ کورس میں طلباء کو فتویٰ سے متعلق مسائل سمجھائے جاتے ہیں اور ان کو فتویٰ دینے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ شعبہ عوام کو درپیش دینی مسائل کے حل کرنے میں مدد کرتا ہے اور روزانہ عوام کی جانب سے پوچھے گۓ سوالات کے جوابات دیتا ہے۔ تجوید للعلماء میں صرف دورہ حدیث سے فارغ عالم دین ہی داخلہ لے سکتے ہیں اور ان کو تجوید کے مکمل قوائد و ضوابط سمجھاۓ جاتے ہیں۔
جامعہ میں تکنیکی ڈپلومہ جات اور مڈیکل کورسز کا آغاز کر دیا گیا ہے تاکہ جامعہ کے طلباء انسانیت کی خدمت کر سکے۔ ان ڈپلوموں میں سول، الیکٹریکل، مکینیکل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ جبکہ مڈیکل کورسز میں ہیلتھ، اینستھیزیا، ڈینٹل اور سرجری شامل ہیں۔

جامعہ میں تعلیم کا آغاز شوال 1391ھ کو کردیاگیا۔ طلباء کی تعداد آٹھ تھی جن میں سے پانچ کا تعلق خانقاہ یاسین زئی سے تھا۔ گرامی قدر مہتمیم صاحب تن تنہا تدریس کی ذمہ داری کے ساتھ خدمت و سفارت بھی سرانجام دیتے۔ ایک سال عارضی سکونت کے بعد ڈیرہ روڈ پر درہ پیزو بازار سے کچھ فاصلے پر چند کنال کا رقبہ خریدا گیا اور 13 آگست 1972ء بمطابق 11 شوال 1392ھ حضرت مفتی محمودؒ کے ہاتھوں مدرسے کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
شروع میں جامعہ حلیمیہ کو کٹھن اور صبر آزما حالات سے گزرنا پڑا۔ سب سے پہلے خانقاہ یاسین زئی کے حضرات اس کے بارے میں مشیر تھے کہ مدرسہ پنیالہ میں قائم کیا جائے لیکن حضرت مہتمیم صاحبؒ درہ پیزو میں اس کے قیام پر مصیر رہے حتیٰ کہ خانقاہ کے حضرات نے آپ کے ساتھ موافقت فرمائی اور جامعہ حلیمیہ کو اپنا مدرسہ سمجھتے ہوئے تعاون سے دریغ نہیں کیا۔ اس کے علاوہ جامعہ کے پاس وسائل کا فقدان تھا۔ پانی جو انسانی زندگی کا لازمی انصر ہے وہ بھی پوری طرح میسر نہیں تھا لیکن مقاصد علیاء پر نظر رکھتے ہوئے ان مشکلات کی پرواہ نہیں کی۔ اس وجہ سے وہ ترقی و عروج کے منازل طے کرتے رہے حلانکہ سادگی ایسی تھی کہ لوگ اس طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہیں تھے اور سچتے تھے کہ خسے پوش جھونپڑی میں رہنے والے یہ بوریا نشین اور دنیا کی لذتوں اور سہولتوں سے محروم لوگ کیا کر سکتے ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ بجلی کا درپیش تھا۔ چونکہ یہ مدرسہ پاسمندہ علاقے میں واقع ہے جہاں لوڈشیڈنگ بہت زیادہ ہوتی ہے اور گرمی کی شدت کی وجہ سے بجلی کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس بنا پر اس ادارے میں جہاں سینکڑوں طلباء رہتے ہوں وہاں اپنی سہولت کا ہونا ضروری تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ چندے کے سلسلے میں میں مہتمیم صاحب کو اکثر اوقات دور دراز سفر پر جانا پڑتا تھا جس کے لۓ ان کے پاس اپنا کوئی آمدورفت کا مستقل ذریعہ نہ تھا۔ ان سب مسائل کے باوجود آپ ثابت قدم رہے اور ایک ایک کر کے بنیادی مسائل کے حل نکال دیئے۔ ساتھ ہی ساتھ طلباء کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور پتہ ہی نہ چلا کہ کب جس مدرسے کا آغاز صرف آٹھ طلباء سے ہوا تھا سینکڑوں میں بدل گیا۔ اب وہ مدرسہ جس کے پاس پانی نہ تھا خود دوسروں کو بھی پانی مہیا کرتا ہے اور سفر کیلۓ اللّٰہ تعالٰی نے گاڑی بھی عطاء کی۔ اللّٰہ سے دعا ہے کہ جامعہ کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطاء فرمائیں۔

جامعہ حلیمیہ چونکہ دارالعلوم دیوبند کے فکر پر وجود آیا ہے اسلۓ اس کے مقاصد و اہداف بھی وہی ہیں۔ جامعہ حلیمیہ کا مقصد نوجوانوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنا اور ان کو علم دینی کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلیف شعبوں کا علم بھی دیا جاتا ہے۔ تاکہ طلباء یہاں سے فارغ ہو کر صرف مسجد اور منبر تک محدود نہ رہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کر سکے۔ اسلۓ طلباء کو علم کے ساتھ عصری علوم بھی دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں باقائدہ ڈپلوموں (تکنیکی اور طیبی ڈپلومہ جات) کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ جامعہ میں دارالافتاء کا بھی نظم ہے جس کا مقصد لوگوں کو درپیش مسائل کا حل بتانا ہوتا ہے اور تخصص میں یہی صلاحیت طلباء کو بھی جاتی ہے تاکہ وہ بھی جدید دینی مسائل میں لوگوں کی مدد کر سکے۔ دارالعلوم دیوبند کی طرح جامعہ حلیمیہ کا مقصد دانشور اور اہل علم رہنما پیدا کرنا ہے جو سیاست اور دیگر اجتماعی مسائل میں لوگوں کی رہنمائی فرما سکے اور اس سلسلے میں جامعہ میں ہفتہ وار اصلاحی بیانات کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ طلباء کی رہنمائی کی جا سکے۔ الغرض جامعہ کا مقصد معاشرے میں اچھے عالم دین، رہنما اور دیگر معمول کی زندگی کے لۓ ذمہ دار شہری تیار کرنا ہے تاکہ وہ ملک و قوم کی ترقی اور فلاح میں کام آسکے۔

جامعہ حلیمیہ کی دینی، مذہبی، ملی، معاشرتی اور سماجی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انتہائی پاسماندہ علاقے میں ابھرنے والا یہ مدرسہ جلد ہی ملک پاکستان کے صف اول کے مدارس میں شامل ہوا۔ یہ سب ہی متعلقین مدرسہ کی خلوص اور نیک نیتی کا نتیجہ ہے۔ جامعہ کے مفتیدین و فضلاءکرام مختلیف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مسجد کی امامت سے پارلیمنٹ تک، حفظ و ناظرہ کی تعلیم سے اساتذہ شیخ الحدیث تک، دعوت الی اللّٰہ سے تزکیہ نفس تک، تنصیف و تالیف، دارالافتاء اور اعلاء کلمۃاللّٰہ کے تمام معاہد کی زینت بنے ہوۓ ہیں۔ اس عظیم علمی چشمے سے سیراب ہونے والے علماءکرام ملک کے طول وعرض میں پھیل گۓ اور اسلام کی حفاظت کی۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کیا۔ خصوصا جامعہ کی خدمات صوبہ بلوچستان، وزیرستان، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، کرک، اور لکی مروت میں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ان علاقوں میں بڑے بڑے مدارس کا وجود جامعہ ہی کی مرہون منت ہیں کیوںکہ ان کے بانیان و ذمہ داران نے جامعہ کے اساتذہ کے سامنے زانواۓ تلمذ تہہ کر تعلیم حاصل کی۔ اکثر مساجد کے منبرومحراب پر جامعہ کے فضلاء کرام رونق افروز ہیں جنھوں نے اساتذہ کرام سے تعمیر انسانیت کے رومز سیکھے اور بٹھکتی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لایا۔ خدا سے برگوشہ لوگوں کو خدا سے ملایا، اسلامی شعائر کی حفاظت کی۔ المختصر علم کی ایک ایسی شمع روشن ہوئی جس نے شاعین اندرون ملک کے ساتھ بیرون ملک تک پہنچ گیں۔ ہماری دلی دعا ہے کہ خدا تعالٰی جامعہ کو اس طرح علوم نبوت سے سر سبزوشاداب رکھے۔ اٰمین