جامعہ میں تعلیم کا آغاز شوال 1391ھ کو کردیاگیا۔ طلباء کی تعداد آٹھ تھی جن میں سے پانچ کا تعلق خانقاہ یاسین زئی سے تھا۔
گرامی قدر مہتمیم صاحب تن تنہا تدریس کی ذمہ داری کے ساتھ خدمت و سفارت بھی سرانجام دیتے۔
ایک سال عارضی سکونت کے بعد ڈیرہ روڈ پر درہ پیزو بازار سے کچھ فاصلے پر چند کنال کا رقبہ خریدا گیا اور 13 آگست 1972ء بمطابق 11 شوال 1392ھ حضرت مفتی محمودؒ کے ہاتھوں مدرسے کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
شروع میں جامعہ حلیمیہ کو کٹھن اور صبر آزما حالات سے گزرنا پڑا۔ سب سے پہلے خانقاہ یاسین زئی کے حضرات اس کے بارے میں مشیر تھے کہ مدرسہ پنیالہ میں قائم کیا جائے لیکن حضرت مہتمیم صاحبؒ درہ پیزو میں اس کے قیام پر مصیر رہے حتیٰ کہ خانقاہ کے حضرات نے آپ کے ساتھ موافقت فرمائی اور جامعہ حلیمیہ کو اپنا مدرسہ سمجھتے ہوئے تعاون سے دریغ نہیں کیا۔
اس کے علاوہ جامعہ کے پاس وسائل کا فقدان تھا۔ پانی جو انسانی زندگی کا لازمی انصر ہے وہ بھی پوری طرح میسر نہیں تھا لیکن مقاصد علیاء پر نظر رکھتے ہوئے ان مشکلات کی پرواہ نہیں کی۔
اس وجہ سے وہ ترقی و عروج کے منازل طے کرتے رہے حلانکہ سادگی ایسی تھی کہ لوگ اس طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہیں تھے اور سچتے تھے کہ خسے پوش جھونپڑی میں رہنے والے یہ بوریا نشین اور دنیا کی لذتوں اور سہولتوں سے محروم لوگ کیا کر سکتے ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ بجلی کا درپیش تھا۔ چونکہ یہ مدرسہ پاسمندہ علاقے میں واقع ہے جہاں لوڈشیڈنگ بہت زیادہ ہوتی ہے اور گرمی کی شدت کی وجہ سے بجلی کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس بنا پر اس ادارے میں جہاں سینکڑوں طلباء رہتے ہوں وہاں اپنی سہولت کا ہونا ضروری تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ چندے کے سلسلے میں میں مہتمیم صاحب کو اکثر اوقات دور دراز سفر پر جانا پڑتا تھا جس کے لۓ ان کے پاس اپنا کوئی آمدورفت کا مستقل ذریعہ نہ تھا۔
ان سب مسائل کے باوجود آپ ثابت قدم رہے اور ایک ایک کر کے بنیادی مسائل کے حل نکال دیئے۔ ساتھ ہی ساتھ طلباء کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور پتہ ہی نہ چلا کہ کب جس مدرسے کا آغاز صرف آٹھ طلباء سے ہوا تھا سینکڑوں میں بدل گیا۔
اب وہ مدرسہ جس کے پاس پانی نہ تھا خود دوسروں کو بھی پانی مہیا کرتا ہے اور سفر کیلۓ اللّٰہ تعالٰی نے گاڑی بھی عطاء کی۔
اللّٰہ سے دعا ہے کہ جامعہ کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطاء فرمائیں۔